Monday, October 8, 2012

Poem: 7 - Tasavvuriya


تصوریہ


تصور سانس لیتا ہے
دیکھتا ہے
سونگھتا ہے
سوچتا ہے
غور کرتا ہے
محسوس کرتا ہے تصور
تصور گوش رکھتا ہے
ہوش رکھتا ہے
جانتا ہے
مانتا ہے
انکار کرتا ہے تصور
تصور ایک عقدہ ہے
باندھتا ہے
کھولتا ہے
اور بندھتا ہے تصور
تصور جاگتا ہے
نیند بھر سوتا ہے
روتا، ہنستا، مسکراتا ہے تصور
تصور گھر کی رونق ہے
شور کرتا ہے
بھاگتا ہے
دوڑتا ہے
روٹھتا ہے
ضد بھی کرتا ہے تصور
من بھی جاتا ہے تصور
تصور کھیلتا ہے
جیتتا ہے
ہَر بھی جاتا ہے تصور
کسی دم ڈر بھی جاتا ہے تصور
جیتے جی
مر بھی جاتا ہے تصور!

[30 اپریل، 1994]


جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔

No comments:

Post a Comment