تصوریہ
تصور سانس
لیتا ہے
دیکھتا ہے
سونگھتا ہے
سوچتا ہے
غور کرتا ہے
محسوس کرتا
ہے تصور
تصور گوش
رکھتا ہے
ہوش رکھتا ہے
جانتا ہے
مانتا ہے
انکار کرتا
ہے تصور
تصور ایک
عقدہ ہے
باندھتا ہے
کھولتا ہے
اور بندھتا
ہے تصور
تصور جاگتا
ہے
نیند بھر
سوتا ہے
روتا، ہنستا،
مسکراتا ہے تصور
تصور گھر کی
رونق ہے
شور کرتا ہے
بھاگتا ہے
دوڑتا ہے
روٹھتا ہے
ضد بھی کرتا
ہے تصور
من بھی جاتا
ہے تصور
تصور کھیلتا
ہے
جیتتا ہے
ہَر بھی جاتا
ہے تصور
کسی دم ڈر
بھی جاتا ہے تصور
جیتے جی
مر بھی جاتا
ہے تصور!
[30 اپریل، 1994]
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ
۔
No comments:
Post a Comment