Saturday, February 27, 2016

لاہور کا نوحہ

لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

[نئے شہر بساؤ اوراپنے شوق پورے کرو؛ ہمارے شہر کیوں ملیامیٹ کر رہے ہو!]



روتی ہوئی حسرت دلِ مغموم سے نکلے
واویلا کرو، بین کرو، اشک بہاؤ
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

اشراف کے خوابوں تلے کچلا گیا یہ شہر
صیاد کے ہتھکنڈوں سے مسلا گیا یہ شہر
آواز کہیں تو کسی حلقوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

جو روح تھی مر بھی چکی، اربابِ سیاست!
لاشہ بہا لے جائے گا سیلابِ سیاست
اس شہر کا قصہ دلِ مغموم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

کتنی ہی عمارات جو پہچان تھیں اس کی
کوچے و گزرگاہیں جو کہ جان تھیں اس کی
نوحہ تو کسی کا لبِ مظلوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

وہ پیڑ، وہ برگد، وہ گھنے سیر کے رستے
منزل سے کہیں بڑھ کے جو تھے خیر کے رستے
اب قافلہ ان کا رہِ مسموم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

اس شہرِنگاراں کو ہوس نے یوں اُدھیڑا
جیسے کسی نادار کو رہزن نے کھُدیڑا
کیا کیا نہ ستم خنجرِ مزعوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

اے ساکنو! کیوں چپ ہو، پنپنے کا نہیں پھر
اس بار جو اجڑے گا تو بسنے کا نہیں پھر
کیوں شہرمٹے، ہستیِ مرقوم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

کاری ہے بہت ظلم کا یہ وار سنبھالو
مشکل نہیں کچھ کام یہ، لاہور بچا لو
لاہور کی جاں، پنجۂ مذموم سے نکلے
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

روتی ہوئی حسرت دلِ مغموم سے نکلے
واویلا کرو، بین کرو، اشک بہاؤ
لاہور کی میت ہے ذرا دھوم سے نکلے

[15 فروری، 2016]

Tuesday, April 28, 2015

ایک اور شہر آشوب

موت ہے رقصاں سڑکوں پر
گلیوں، بازاروں میں شکاری گھات میں ہیں
چاہتے ہو گر اپنا بھلا
گھر میں بیٹھو خیر مناؤ
انسانوں کے گھروں میں 
جن حیوانوں کا جنم ہوا
شہر پر ان کا راج ہے آج!

[26 اپریل، 2015]

Monday, November 25, 2013

پاکستان - تاریخ چلی الٹے پاؤں

فیروز اللغات (اردو) میں ’شہر آشوب‘ سے مراد ایسی نظم ہے، جس میں کسی شہر کی پریشانی و بربادی کا ذکر ہو ۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق (۱) وہ مدح یا زم جو شعرا کسی شہر کی نسبت لکھیں؛ کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا نظمیہ ذکریا ماتم؛ - - -

اور اگرشہر سے ملک اور دنیا مراد لی جائے، جیسا کہ معمول بھی ہے، تو ہر زبان کی بیشتر شاعری کو شہر آشوب میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ جب سے وجود میں آیا ہے، سراپا شہر آشوب بنا ہوا ہے ۔ اور اس کے اکثر شہریوں کی زندگی، شہر آشوب کا جیتا جاگتا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔

اگر میں اپنی کچھ نظموں پر نظر ڈالوں تو ان میں سے کچھ اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں ۔

جیسے کہ یہ نظم، جو ستمبر 1998 میں لکھی گئی تھی:

شہروں شہروں
لوگوں کی بہتی ہوئی بھیڑ

سب کے سروں پر
تاریکی کے گٹھڑ اور
ہاتھوں میں بارود کے پتھر

ایسے میں جگنو کی موت یقینی ہے!

اسی طرح، دسمبر 1998 میں لکھی جانے والی اس نظم کو بھی ’شہر آشوب‘ میں شمار کیا جا سکتا ہے:

سمت کوئی محفوظ نہیں ہے
قدم قدم پر خطرہ ہے

یکدم کچھ بھی ہو سکتا ہے
کوئی بھی آفت آسکتی ہے

اک لمحہ بھی غافل ہونا
موت کو دعوت دے سکتا ہے

پھنکاریں، چنگھاڑیں ہیں
اور کلیجہ چیر کے رکھ دینے والی آوازیں

حشرات ِ ارضی کا مسکن
اور درندوں کا ڈیرہ ہے
انسانوں کا نام نہیں
سانپ اور بچھو،
ریچھ اور چیتے بستے ہیں

زہریلے خودرو پودوں سے اٹا ہوا ہے
شہر نہیں یہ جنگل ہے
پھونک پھونک کے پاؤں رکھو
بچ بچ کے چلو!

میرا ذہن اکثر اس نظم کی طرف لوٹتا رہا ہے ۔ یہ پاکستان کا شہر آشوب ہے ۔ اور میں سوچتا تھا کہ حالات ایسے ہی رہیں گے، جیسے کہ 1998 کی اس نظم میں گرفت کیے گئے ہیں ۔ لیکن موجودہ حالات نے میرے اس یقین کو جھٹلا دیا ۔ اورمیرے اس احساس سے ایک نیا ’شہر آشوب‘ برآمد ہوا:

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معلوم بنا ہے نامعلوم
موجود کو جانتے ہیں معدوم
تاریخ چلی الٹے پاؤں

الفاظ بے چارے خاک ہوئے
چنگھاڑوں کی خوراک ہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معنی کاجہاں تاراج ہوا
بھوکے لومڑ کا تاج ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تصویریں خون آلود ہوئیں
پنجوں کا نام نمود ہوئیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

جو کچھ تھا حسیں، بدنام ہوا
حیوان صفت کے نام ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نغمات کی لَے، فریاد ہوئی
مقتول کی’ ہائے‘، داد ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تخلیق کی آب وتاب مِٹی
ادرک بندر کے ہاتھ لگی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر سوچ کے چشمے گدلائے
من مانی، جبلت کروائے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

ناطاقتی، موت کا جال بنی
پھر طاقت، اوجِ کمال بنی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

قائم ہوا راج، چرندوں کا
لاگو، آئین درندوں کا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

گھر بار ڈھلے، پھر غاروں میں
کمزور چھپے، اندھیاروں میں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

رستے پھر سے خونخوار ہوئے
رہزن پیڑ اور اشجا رہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر جان کے ہر دم لالے ہیں
ہر ہاتھ میں نیزے بھالے ہیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر دہشت بالا دست ہوئی
ہمت جینے سے پست ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نہ دن میں اماں، نہ رات میں ہے
خود جائے پناہ بھی گھا ت میں ہے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معصوم ہرن، مجرم ٹھہرے
عیار مَگَر، حاکم ٹھہرے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی ملک کے لیے اس سے بڑا شہر آشوب کیا ہوگا کہ وہ تاریخ کے الٹے چلنے کی گواہی بن جائے! 

Friday, October 11, 2013

Poem: 46 - Dard ki shiddat hay aur tanha hoon mein

غزل

درد کی شدت ہے اور تنہا ہوں میں
بے بسی قسمت ہے اور تنہا ہوں میں

دائرے میں دائرہ ہے، راستہ کوئی نہیں
ورطۂ حیرت ہے اور تنہا ہوں میں

آرزوئیں کب کی رخصت ہو چکیں
مجمعِ حسرت ہے اور تنہا ہوں میں

بے حسی کا شہر ہے، آباد ہے
اجنبی خلقت ہے اور تنہا ہوں میں

فکر کو کس نے فلیتہ دے دیا
لفظ ہے، دہشت ہے، اور تنہا ہوں میں

خوف کا بازار، قاتل آڑھتی
زندگی قیمت ہے اور تنہا ہوں میں

بدمعاشی گھر گئی اشراف کے
جُرعۂ ہمت ہے اور تنہا ہوں میں

[11 اکتوبر، 2013]

جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔

Poem: 45 - Qatilon nay shehr par qabza kiya, achha kiya

غزل

قاتلوں نے شہر پر قبضہ کیا، اچھا کیا
زندگی کی بزم کو چلتا کیا، اچھا کیا

وہ جو رنگا رنگ تھیں رنگینیاں سی جا بجا
ہائے بد رنگی انھیں بھدا کیا، اچھا کیا

چشمۂ شفاف تھا اور چار سو تھی تازگی
دھوئیں تلواریں، اسے گدلا کیا، اچھا کیا

تیشۂ سنگین سے ٹکرائی جو شمع کی لو
غیض نے سورج کو ہی بجھتا کیا، اچھا کیا

کونسا پہلے یہاں بہتی تھی نہریں دودھ کی
ہر روش کو خون آلودہ کیا، اچھا کیا

[22 سمتبر، 2013]

جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔

Wednesday, October 17, 2012

Poem: 44 - Wo abhi yaheen tha


نظم

وہ ابھی یہیں تھا
کچھ کھیل رہا تھا
ہاں، رک رک کر ہنستا
پانی کے پستول کی پچکاری
مجھ پر ڈال رہا تھا
جو اب میری آنکھوں میں
آنسو بن کر تیر رہی ہے!

[8 مئی، 1995] 


جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔

Poem: 43 - Tujhay hansaoon tujhay rulaoon


نظم

تجھے ہنساؤں
تجھے رلاؤں

کبھی میں تیرے قریب آؤں
قریب اتنا تو چونک جائے
تو خوف کھائے

کبھی تجھے دور سے ستاؤں
تری نہیں کو میں روند جاؤں!

[21 دسمبر، 1998]


جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔