نظم
جب بھی اس سے
ملنے جاؤ
نیش زنی کی
تاک میں ہوتی ہے وہ تو
اب آئے ہو
مدت گزری فون
تمہارا آیا تھا
کیا دوبارہ
فون نہیں کر سکتے تھے
چل کر آ نہیں
سکتے تھے کیا
عاشقِ بالغ
ہو بھی جاؤ
میں تم سے
ملنے آؤں یا نہ آؤں
تم آؤ
میں تم کو
فون کروں یا
رِنگ بیک
کروں
چھوڑو ان
باتوں کو
میرے پاس
بھلا اتنا
وقت کہاں ہے
تم تو ازلوں
کے فارغ
اور نکمے
عشق کے کامے،
بے ذاتے
اس کے سامنے
کوئی جواز،
دلیل، بہانہ،
حیلہ جوئی،
یا سچائی چل
نہیں سکتی
اس سے ملنا
زخم خریدنے
جانا ہے!
[15 جنوری، 1999]
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔
No comments:
Post a Comment