Monday, October 8, 2012

Poem: 3 - Ussay meiri zaroorat hay


نظم

اسے میری ضرورت ہے
چلو یہ بھی غنیمت ہے
کہ اپنے کام کی خاطر
وہ میرے پاس تو آئے
ہنسے، بولے،
کہے اپنی، سنے میری،
اسی حیلے اسے نزدیک سے دیکھوں

مجھے کوئی غلط فہمی نہیں تھی
وہ مجھ پہ مہرباں کیوں ہو
مگر کچھ پاس تو ہو گا
ضرورت کے تعلق کا
سرِ راہے مجھے دیکھے گی تو رک جائے گی
بس اک دو بول خیروعافیت کے
کبھی عیدین پر
یا آمدِ جشنِ بہاراں پر
مبارک باد بھیجے گی

مجھے معلوم ہی نہ تھا
وہ اتنی خود غرض ہو گی
کہ سب کچھ بھول جائے گی
ضرورت بھی، تعلق بھی
ضرورت کا تعلق بھی
وہ اتنی مطلبی ہو گی
مجھے کیونکر یقیں آئے!


[16 اگست، 1998]

جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔

No comments:

Post a Comment