نظم
اسے میری
ضرورت ہے
چلو یہ بھی
غنیمت ہے
کہ اپنے کام
کی خاطر
وہ میرے پاس
تو آئے
ہنسے، بولے،
کہے اپنی،
سنے میری،
اسی حیلے اسے
نزدیک سے دیکھوں
مجھے کوئی
غلط فہمی نہیں تھی
وہ مجھ پہ
مہرباں کیوں ہو
مگر کچھ پاس
تو ہو گا
ضرورت کے
تعلق کا
سرِ راہے
مجھے دیکھے گی تو رک جائے گی
بس اک دو بول
خیروعافیت کے
کبھی عیدین
پر
یا آمدِ جشنِ
بہاراں پر
مبارک باد
بھیجے گی
مجھے معلوم
ہی نہ تھا
وہ اتنی خود
غرض ہو گی
کہ سب کچھ
بھول جائے گی
ضرورت بھی،
تعلق بھی
ضرورت کا
تعلق بھی
وہ اتنی
مطلبی ہو گی
مجھے کیونکر
یقیں آئے!
[16 اگست، 1998]
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔
No comments:
Post a Comment