Tuesday, October 9, 2012

Poem: 18 - Main nay dunya ko iss taraha dekha


ایک نامکمل نظم

میں نے دنیا کو اس طرح دیکھا
جیسے بچھڑی ہوئی محبت ہو

میں نے دنیا کو اس طرح چاہا
جیسے کھویا ہوا تعلق ہو

میں نے دنیا کو اس طرح چوما
جیسے صحرا میں شا خِ تر کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح چکھا
جیسے پہلا سا ذائقہ چاہوں

میں نے دنیا کو اس طرح بھینچا
جیسے دل سے جد ا ہوئی تو کیوں

میں نے دنیا کو اس طرح رکھا
جیسے مہمان پل دو پل کی ہو

میں نے دنیا کو اس طرح پایا
جیسے گم نہ کبھی ہوئی تھی یہ

میں نے دنیا کو اس طرح جھپٹا
جیسے نسخۂ کیمیا ہو کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح توڑا
جیسے پھل خود سے ہاتھ میں آ جائے

میں نے دنیا کو اس طرح لپکا
طفلِ معصوم گر نہ جائے کہیں

میں نے دنیا کو اس طرح پکڑا
جیسے اب چھوٹے، یا کہ تب چھوٹے

میں نے دنیا کو اس طرح تھاما
جیسے غلطی سے جام گر جائے

میں نے دنیا کو اس طرح کھویا
جیسے شے رکھ کے بھول جائیں کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح کوسا
جیسے خود کو برا بھلا کہہ لیں

میں نے دنیا کو اس طرح پالا
جیسے ناگن کسی سپیرے کی

میں نے دنیا کو اس طرح تاکا
جیسے زندہ ہو سانپ، یا مردہ

میں نے دنیا کو اس طرح ٹالا
جیسے بادل ہوا، اڑا لے جائے

میں نے دنیا کو اس طرح جانچا
جیسے مقتول اپنے قاتل کو

میں نے دنیا کو اس طرح جانا
جیسے جو جان پائے مر جائے

میں نے دنیا کو اس طرح گھورا
جیسے اک بے رحم شکاری ہو

میں نے دینا کو اس طرح روندا
جیسے باغی ہو کوئی، بے قابو

میں نے دنیا کو اس طرح مسلا
جیسے اک پنکھڑی گلاب کی ہو

میں نے دنیا کو اس طرح چھوڑا
جیسے خود سے نجات پانی ہے

میں نے دنیا کو اس طرح لکھا
جیسے بچے کی اولیں کوشش

میں نے دنیا کو اس طرح پرکھا
جیسے سونے پہ شک کر ے کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح سوچا
جیسے رنگینیوں کی بھٹی ہو

میں نے دنیا کو اس طرح ڈھالا
جیسے میں خود ہو ں چاک، یہ مٹی

میں نے دنیا کو اس طرح تھپکا
جیسے آقا بنے، غلا م کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح تولا
جیسے جھوٹے کی پہلی تول صحیح

میں نے دنیا کو اس طرح کھولا
جیسے کوئی قدیمی پُستک ہو

میں نے دنیا کو اس طرح پوچھا
جیسے اک آخری سوال کوئی

میں نے دنیا کو اس طرح سمجھا
جیسے اک نا سمجھ کی خاموشی

میں نے دنیا کو اس طرح بوجھا
جیسے لڑتی ہو ئی پہیلیاں ہو ں

میں نے دنیا کو اس طرح ٹوکا
جیسے تاویل کوئی جھوٹی ہو

میں نے دنیا کو اس طرح مانا
جیسے جب بے دلیل مانتے ہیں

میں نے دنیا کو اس طرح کھیلا
جیسے جیتوں گا تب ہی چھوڑوں گا

[11 دسمبر، 2011]


جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔

No comments:

Post a Comment