نظم
سمت کوئی
محفوظ نہیں ہے
قدم قدم پر
خطرہ ہے
یکدم کچھ بھی
ہو سکتا ہے
کوئی بھی آفت
آ سکتی ہے
اک لمحہ بھی
غافل ہونا
موت کو دعوت
دے سکتا ہے
پھنکاریں،
چنگھاڑیں ہیں
اور کلیجہ
چیر کے رکھ دینے والی چیخیں
حشراتِ ارضی
کا مسکن
اور درندوں
کا ڈیرہ ہے
انسانوں کا
نام نہیں
سانپ اور
بچھو،
ریچھ اور
چیتے بستے ہیں
زہریلے خود
رو پودوں سے اٹا ہوا ہے
شہر نہیں یہ
جنگل ہے
پھونک پھونک
کے پاؤں رکھو
بچ بچ کے
چلو!
[10 دسمبر، 1998]
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ
۔
No comments:
Post a Comment