Tuesday, October 9, 2012

Poem: 22 - Iss shehr mein jangle ugg aaya


نظم

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معلوم بنا ہے نامعلوم
موجود کو جانتے ہیں معدوم
تاریخ چلی الٹے پاؤں

الفاظ بے چارے خاک ہوئے
چنگھاڑوں کی خوراک ہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معنی کاجہاں تاراج ہوا
بھوکے لومڑ کا تاج ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تصویریں خون آلود ہوئیں
پنجوں کا نام نمود ہوئیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

جو کچھ تھا حسیں، بدنام ہوا
حیوان صفت کے نام ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نغمات کی لَے، فریاد ہوئی
مقتول کی ’ہائے‘، داد ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تخلیق کی آب وتاب مِٹی
ادرک بندر کے ہاتھ لگی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر سوچ کے چشمے گدلائے
من مانی، جبلت کروائے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

ناطاقتی، موت کا جال بنی
پھر طاقت، اوجِ کمال بنی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

قائم ہوا راج، چرندوں کا
لاگو، آئین درندوں کا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

گھر بار ڈھلے، پھر غاروں میں
کمزور چھپے، اندھیاروں میں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

رستے پھر سے خونخوار ہوئے
رہزن پیڑ اور اشجا رہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر جان کے ہر دم لالے ہیں
ہر ہاتھ میں نیزے بھالے ہیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر دہشت بالا دست ہوئی
ہمت جینے سے پست ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نہ دن میں اماں، نہ رات میں ہے
خود جائے پناہ بھی گھا ت میں ہے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معصوم ہرن مجرم ٹھہرے
عیار مَگَر، حاکم ٹھہرے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

[7 اگست، 2012]


جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر  محفوظ ۔

No comments:

Post a Comment