نظم
تم ایسے وقت
میں آئیں
کہ جب میں لٹ
چکا تھا
بک چکا تھا
تم اتنی دیر
سے آئیں
کہ جب میں
خود اپنا ہی
مقدر لکھ چکا تھا
مجھے معلوم
ہے
جو ہو چکا وہ
مٹ نہیں سکتا
میں یہ بھی
جانتا ہوں
جو بارش ہو
چکی ہے
دھنک جو
آسماں پر کھل چکی ہے
وہ خنکی جو
فضا میں آ چکی ہے
کسی صورت بھی
واپس ہو نہیں سکتی
میں اک خلقت ہوں
جو بھٹکی
پھری
عمر بھر
کبھی اِس در
کبھی اُس در
مگر جس کا
پیمبر
بہت ہی دیر
سے آیا!
[3 مارچ، 1998]
جملہ حقوق بحقِ شاعر ـ بلاگر محفوظ ۔
No comments:
Post a Comment