Monday, November 25, 2013

پاکستان - تاریخ چلی الٹے پاؤں

فیروز اللغات (اردو) میں ’شہر آشوب‘ سے مراد ایسی نظم ہے، جس میں کسی شہر کی پریشانی و بربادی کا ذکر ہو ۔ فرہنگِ آصفیہ کے مطابق (۱) وہ مدح یا زم جو شعرا کسی شہر کی نسبت لکھیں؛ کسی شہر کے اجڑنے یا برباد ہونے کا نظمیہ ذکریا ماتم؛ - - -

اور اگرشہر سے ملک اور دنیا مراد لی جائے، جیسا کہ معمول بھی ہے، تو ہر زبان کی بیشتر شاعری کو شہر آشوب میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ جب سے وجود میں آیا ہے، سراپا شہر آشوب بنا ہوا ہے ۔ اور اس کے اکثر شہریوں کی زندگی، شہر آشوب کا جیتا جاگتا نمونہ بنی ہوئی ہے ۔

اگر میں اپنی کچھ نظموں پر نظر ڈالوں تو ان میں سے کچھ اسی زمرے میں رکھی جا سکتی ہیں ۔

جیسے کہ یہ نظم، جو ستمبر 1998 میں لکھی گئی تھی:

شہروں شہروں
لوگوں کی بہتی ہوئی بھیڑ

سب کے سروں پر
تاریکی کے گٹھڑ اور
ہاتھوں میں بارود کے پتھر

ایسے میں جگنو کی موت یقینی ہے!

اسی طرح، دسمبر 1998 میں لکھی جانے والی اس نظم کو بھی ’شہر آشوب‘ میں شمار کیا جا سکتا ہے:

سمت کوئی محفوظ نہیں ہے
قدم قدم پر خطرہ ہے

یکدم کچھ بھی ہو سکتا ہے
کوئی بھی آفت آسکتی ہے

اک لمحہ بھی غافل ہونا
موت کو دعوت دے سکتا ہے

پھنکاریں، چنگھاڑیں ہیں
اور کلیجہ چیر کے رکھ دینے والی آوازیں

حشرات ِ ارضی کا مسکن
اور درندوں کا ڈیرہ ہے
انسانوں کا نام نہیں
سانپ اور بچھو،
ریچھ اور چیتے بستے ہیں

زہریلے خودرو پودوں سے اٹا ہوا ہے
شہر نہیں یہ جنگل ہے
پھونک پھونک کے پاؤں رکھو
بچ بچ کے چلو!

میرا ذہن اکثر اس نظم کی طرف لوٹتا رہا ہے ۔ یہ پاکستان کا شہر آشوب ہے ۔ اور میں سوچتا تھا کہ حالات ایسے ہی رہیں گے، جیسے کہ 1998 کی اس نظم میں گرفت کیے گئے ہیں ۔ لیکن موجودہ حالات نے میرے اس یقین کو جھٹلا دیا ۔ اورمیرے اس احساس سے ایک نیا ’شہر آشوب‘ برآمد ہوا:

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معلوم بنا ہے نامعلوم
موجود کو جانتے ہیں معدوم
تاریخ چلی الٹے پاؤں

الفاظ بے چارے خاک ہوئے
چنگھاڑوں کی خوراک ہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معنی کاجہاں تاراج ہوا
بھوکے لومڑ کا تاج ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تصویریں خون آلود ہوئیں
پنجوں کا نام نمود ہوئیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

جو کچھ تھا حسیں، بدنام ہوا
حیوان صفت کے نام ہوا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نغمات کی لَے، فریاد ہوئی
مقتول کی’ ہائے‘، داد ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

تخلیق کی آب وتاب مِٹی
ادرک بندر کے ہاتھ لگی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر سوچ کے چشمے گدلائے
من مانی، جبلت کروائے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

ناطاقتی، موت کا جال بنی
پھر طاقت، اوجِ کمال بنی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

قائم ہوا راج، چرندوں کا
لاگو، آئین درندوں کا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

گھر بار ڈھلے، پھر غاروں میں
کمزور چھپے، اندھیاروں میں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

رستے پھر سے خونخوار ہوئے
رہزن پیڑ اور اشجا رہوئے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر جان کے ہر دم لالے ہیں
ہر ہاتھ میں نیزے بھالے ہیں
تاریخ چلی الٹے پاؤں

پھر دہشت بالا دست ہوئی
ہمت جینے سے پست ہوئی
تاریخ چلی الٹے پاؤں

نہ دن میں اماں، نہ رات میں ہے
خود جائے پناہ بھی گھا ت میں ہے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

معصوم ہرن، مجرم ٹھہرے
عیار مَگَر، حاکم ٹھہرے
تاریخ چلی الٹے پاؤں

اس شہر میں جنگل اُگ آیا
تاریخ چلی الٹے پاؤں

آخر میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کسی ملک کے لیے اس سے بڑا شہر آشوب کیا ہوگا کہ وہ تاریخ کے الٹے چلنے کی گواہی بن جائے! 

No comments:

Post a Comment